ایران کی طرف سے حالیہ میزائل حملے نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو بڑھا دیا ہے، جس سے اسرائیل کے سکیورٹی وزیر نے زور دے کر کہا ہے کہ قوم کو جارحانہ انداز میں جواب دینے کے لیے اپنی تیاری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس پیش رفت نے یورپی یونین سمیت بین الاقوامی مبصرین کو پریشان کر دیا ہے، جنہوں نے خبردار کیا ہے کہ خطہ ایک بڑے بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ صورتحال نے عالمی قیادت کی اعلیٰ سطح کی توجہ مبذول کرائی ہے، امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل کے بے لگام ردعمل کے امکانات پر نجی خدشات کا اظہار کیا ہے۔ مالیاتی منڈیوں نے بڑھتے ہوئے تناؤ پر گھبراہٹ کا اظہار کیا ہے، حصص کی قیمتیں گرنے سے سرمایہ کاروں نے محتاط رویہ اپنایا ہے۔ اس بحران نے تیل کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ بھی پیدا کر دیا ہے، جو عالمی اقتصادی عدم استحکام کو بڑھا سکتا ہے۔ تجزیہ کار صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ کسی بھی قسم کی کشیدگی کے فوری علاقے سے باہر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ عالمی برادری مزید کشیدگی کو روکنے کے لیے تحمل اور سفارتی مشغولیت پر زور دے رہی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے مبینہ طور پر اسرائیلی حکومت کو ایک پیمائشی ردعمل پر غور کرنے کا مشورہ دیا ہے، اس امید کے ساتھ کہ وسیع تر تنازعے سے بچنے کی امید ہے جو دوسری قوموں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے اور پہلے سے ہی غیر مستحکم مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔ جیسے جیسے صورتحال سامنے آتی ہے، دنیا بے چینی سے دیکھ رہی ہے، امید ہے کہ سفارتی کوششیں فوجی کارروائی پر غالب آئیں گی۔ وسیع تر تصادم کا امکان خطے میں طاقت کے کمزور توازن اور امن و سلامتی کو برقرار رکھنے میں بین الاقوامی سفارت کاری کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری تناؤ مشرق وسطیٰ کی سیاست کی پیچیدگیوں اور ان ہنگامہ خیز پانیوں پر سفر کرنے میں عالمی رہنماؤں کو درپیش چیلنجوں کی واضح یاد دہانی کا کام کرتا ہے۔ چونکہ صورتحال کو کم کرنے کی کوششیں جاری ہیں، بین الاقوامی برادری اس جغرافیائی سیاسی تعطل میں ملوث اعلیٰ داؤ پر لگاتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔
اس عام گفتگو جواب دینے والے پہلے شخص بنیں۔